Thursday 3 November 2011

ایک کنجوس کا بیٹا:


ایک کنجوس کا بیٹا:
شیخ سعدی ایک حکایت ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ایک کنجوس امیر کا بیٹا بیمار ہوا۔ اس کے دوستوں اور خیر خواہوں نے اس سے کہا کہ اس کی بیماری سے شفا کے لئے قرآن مجید کا ختم کروا کر دعائے خیر کرا، یا اس کے لئے مالی صدقہ دے تاکہ اس کے سر سے بلا وبیماری ٹل جائے۔ یہ سن کر وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گیا اور پھر بولا دوستو قرآن مجید کا ختم کرنا زیادہ مناسب ہے ، اس لئے کہ میرے مال مویشی دور ہیں اور جانور کیسے لا کر صدقہ دوں۔ ایک صاحب دل نے اس کی بات سن لی اور اس کی نیت کو بھانپ گیا۔ کہنے لگا قرآن ختم کرنا اسے اس لئے پسند آیا کہ قرآن مجید تو اس کی نوک زبان پر یعنی اسے زبانی یاد ہے اور روپیہ اس کی جان میں اٹکا ہے۔ یعنی اسے قرآن مجید خود پڑھنا ہے، جو آسان اور سستا ہے اور صدقہ کا جانور دینا دولت کا خرچہ ہے جو اسے مشکل نظر آتا ہے۔
سچ ہے کہ فرمانبرداری کے لئے زمین پر گردن رکھنا یعنی بدنی عبادت مشکل لگتی ہے ۔ جب اس کے ساتھ صدقہ مال بھی دینا ہوتا ہے۔ ایک دینار خرچ کرنے کے موقع پر لوگ دلدل میں پھنسے ہوئے گدھے کی مثل بن جاتے ہیں۔ اگر الحمد پڑھنی پڑے تو سو بار پڑھ لیں گے، مگرپیسے دینا بوجھ سمجھا جاتا ہے۔
درس حیات:
1۔کنجوس کے لئے مالی قربانی دینا بہت گراں ہوتا ہے۔
2۔کنجوس اپنا مال اپنی اولاد پر بھی خرچ نہیں کرتا۔
3۔بدنی عبادت میں مالی خرچ نہیں ہوتا اس لئے کنجوس اسے پسند کرتے ہیں۔
4۔کنجوس طبع کے لئے روپیہ پیسہ خرچ کرنا اتنا گراں ہے جتنا کسی گدھے کا دلدل میں پھنس کر نکلنے کی کوشش کرنا ہے۔(حکایات سعدی صفحہ240)
ےR � � � XZ; �O9 ہے۔(خطبات فقیرجلد14صفحہ168)

No comments:

Post a Comment