Tuesday 21 August 2012

Logo

Al-Saif Trust
Al-Saif Trust
Light of knowledge is spread.
Service's Interests
To develop


السیف ٹرسٹ


السیف ٹرسٹ کب اور کیسے قائم ہوا۔(عجیب کہانی)
السیف ٹرسٹ کا قیام 2009 میں ہوا ۔ اس کے قیام کی بھی عجیب کہانی ہے۔ میں ایک مرتبہ انٹر نیٹ پر بیٹھا اردو کی ویب سائٹس اور مضامین وغیرہ تلاش کررہا تھا کہ اس دوران میری نظر ایک ایسے مضمون پرپڑی جو اس ٹرسٹ کے قیام کا سبب بنا اس مضمون کومیں یہاں تو نہیں لکھوں گا البتہ آخر میں اس کا لنک آپ کو دوں گا اسے آپ خود ہی پڑھ لیں۔
یہاں اس حوالے سے چند باتیں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ انفاق فی سبیل اللہ قرآن کی ایک خاص اصطلاح ہے جو تقریبا ہر سپارے میں آپ کو نظر آئے گی۔قرآن حدیث میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
یاایھاالذین اٰمنوا انفقوا مما رزقناکم من قبل ان یایتی یوم لابیع فیہ ولا خلۃ و لا شفاعۃ
اے ایمان والو جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کر لو اس دن کے آنے سے پہلے جس دن نہ بیع ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ ہی کوئی سفارش ۔
یعنی قیامت سے پہلے پہلے ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے کچھ خرچ کرلو کیونکہ قیامت کا دن ایسا دن ہے کہ وہاں دنیا کی طرح خرید وفروخت نہیں ہوگی کہ آپ پیسہ لگا کر کسی کو خرید لو اور وہ تمہاری جان بچا لے ، نہ ہی وہاں دنیا کی طرح دوستیاں کام آئیں گیں اور نہ ہی سفارشیں چلیں گیں۔
ایک اور جگہ فرمایا:
یمحق اللہ الربا ویربی الصدقات
اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتاہے۔ یعنی سود سے بظاہر کتنا ہی مال بڑھتا رہے مگر انجام کار نقصان ہوگا، اور صدقات سے بظاہر کتنا ہی مال کم ہوتا رہے مگر اللہ تعالیٰ اس آدمی کے مال کو بڑھاتے ہیں۔
اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں دس گنا فائدہ دیتے ہیں اور آخرت میں ستر گنا منافع ملے گا۔
ایک بار مدینے میں قحط آگیا بازاروں سے بھی غلہ ختم ہوگیا، لوگ سخت پریشان تھے، اچانک لوگوں نے دیکھا کہ 1200 اونٹ غلے کے مدینے کی منڈی میں آگئے لوگ حیران تھے کہ کس تاجر کا مال ہے ، پھر پتا چلا کہ یہ مال حضرت عثمان کا ہے جو انہوں نے شام سے منگوایا ہے ، چنانچہ مدینے کے تمام تاجر مال خریدنے کے لئے آگئے ، بولی لگنا شروع ہوئی کسی نے کہا ہم 40 روپے من کے حساب سے لیں گے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کم ہے ، دوسرے تاجر نے کہا میں 50 روپے من کے حساب سے لوں گا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کم ہے الغرض بولی بڑتی رہی اور بالاخر ایک جگہ پر آکر تمام تاجر خاموش ہوگئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے اس سے زیادہ بولی تو کوئی تاجر نہیں دے گا آپ کو کتنا منافع چاہئے؟
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جس تاجر سے میں نے سودا لگایا ہوا ہے وہ مجھے دن گنا منافع دے گا اور آخرت میں ستر گنا دے گا یہ کہہ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سارا مال لوگوں میں فری تقسیم کردیا۔
اس وقت دنیا کی امیر ترین قوم یہودی ہیں، وہ ہمیشہ اپنے مال میں سے 20% نکال کر خیرات کرلیتے ہیں، چونکہ اللہ کا یہ قانون دنیا میں سب کے لئے برابر ہے کہ خرچ کرنے والے کو 10 گنا منافع ملے گا، اسی وجہ سے ان کو اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی امیر ترین قوم ہیں۔
بل گیٹس کئی سال تک دنیا کا امیر ترین شخص رہا ہے ، اس کی وجہ اور راز یہی تھا کہ وہ ہر سال اتنی خیرات کرتا تھا کہ وہ خیرات پاکستان کے پورے سال کے بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتی تھی۔
لاہور میں ایک ہسپتال ہے شائد آپ میں سے کسی نے دیکھی ہو، اس ہسپتال کا نام ہے منشی ہسپتال۔
یہ ہسپتال جس شخص نے بنایا اس کا نام منشی محمد تھا یہ نہایت ہی غریب شخص تھا کپڑا بیچا کرتا تھا، اسی کسی نے بتایا تم اپنے مال میں سے کچھ فیصد مقرر کرکے مستحق لوگوں پر خرچ کرو بہت فائدہ ہوگا، چنانچہ اس نے 4فیصد مقرر کردیئے اور ہر مہینے اپنے منافع میں سے 4فیصد خرچ کرتا رہا ، کچھ ہی عرصے بعد اس کا کاروبار بڑھنےلگا ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ فیکٹری کا مالک بن گیا وہ اسی طرح چار فیصد خرچ کرتا رہا اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ اس نے کروڑوں روپے مالیت کی ایک ہسپتال بنائی جنرل ضیاالحق نے اس کا افتتاح کیا ، وہ ہسپتال آج بھی لاہور میں منشی ہسپتال کے نام سے کام کررہی ہے۔
یہ اور اس جیسےدوسرےواقعات کو پڑھ کر میں نے بھی فیصلہ کیا کہ میں اپنی تنخواہ میں سےباقاعدگی کے ساتھ پانچ فیصد خرچ کروں گا چنانچہ میں نے اپنے جیب پرس کے ایک خانے میں  السیف ٹرسٹ قائم کیا، بال پن کے ساتھ اس پر لکھ دیا السیف ٹرسٹ اور پھر میں اپنی تنخواہ جو اس وقت 8000ہزار تھی اس میں سے ہر مہینے 5فیصد نکال کر کسی مسجد مدرسے یا غریب کو دینا شروع کیا ، میری اس وقت حیرت کی انتہا ہوگئی کہ وہی آٹھ ہزار جن سےمیرے اپنے ذاتی اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے ان میں اتنی برکت ہوگئی کہ میں نے گھر والوں کو بھی دینا شروع کردیا ، کچھ عرصہ کے بعد وہاں سےکام چھوڑ کر ایک اور جگہ پر گیا وہاں میری تنخواہ صرف چھ ہزار مقرر ہوئی لیکن میں پانچ فیصد دیتا رہا اللہ نے ان چھ ہزار میں اتنی برکت رکھی کہ پہلے تو آٹھ ہزار سے میں اپنے ذاتی خرچے پورے نہیں کرسکتا تھا لیکن اب ایک سال بعد مہنگائی کے باوجود صرف چھ ہزار میں نہ صرف اپنے بلکہ اپنے بیوی بچوں کے تمام اخراجات پورے کرنے لگا۔اس دوران مجھے کیا کیا اور کیسے کیسے فائدے ہوئے وہ میں بیان نہیں کرسکتا اس سے متاثر ہو کر میں نے پانچ فیصد کو بڑھا کر 10 فیصد کردیا جس سے مزید مجھے فائدہ ہونا شروع ہوا میری تنخواہ بھی بہت زیادہ بڑھ گئی پھر ایک سال کے بعد میں نے مزید اضافہ کر کے 20 فیصد کردیا اور اب الحمداللہ میں ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ 20 فیصد اپنی آمدن میں سے فورا نکال لیتا ہوں اور اس سے مجھے اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔مجھے احساس ہے کہ میں ابھی بھی کوئی کمال نہیں کررہا کیونکہ 20 فیصد تو یہودی بھی خرچ کرتےہیں انشااللہ میرا عزم ہے کہ عنقریب میں بحیثیت مسلمان ہونے کے یہودیوں کو پیچھے چھوڑوں گا۔
یہ سب کچھ آپ کو بتانے کا مقصد ریا کاری نہیں بلکہ آپ کو اس نیک کام پر ترغیب دینا ہے ۔
امید ہے آپ بھی اس کام میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیں گے۔ اب آپ وہ مضمون پڑھیں جس کا میں نے شروع میں تذکرہ کیا تھا۔ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

Sunday 13 November 2011

کرم کا درخت


کرم کا درخت
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قارون کو نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا ہے ، تو بھی اسی طرح احسان کر ۔ مگر اس نے نہ سنا۔
 اے انسان تو نے تو اس کو سن لیا ہے۔ اس کے انجام کو بھی سن لے۔ جس نے روپے پیسے سے بھلائی جمع نہ کی اس نے روپے پیسے اور دنیا کے لئے زندگی گزاری۔
یاد رکھ قول ہے کہ سخاوت کر اور احسان نہ جتا۔
 یادرہے کہ کرم کا درخت جہاں اُگ آتا ہے تو اس کی شاخین آسمان کی طرف جاتی ہے۔ اگر تو اس کے پھل کھانے کی خواہش کرتا ہے تو احسان جتا کر اس درخت کی جڑ نہ کاٹ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر کہ تجھے اس نے بھلائی کی توفیق دی ہے۔ اس نے تجھے اپنے فضل وکرم سے نوازا ہے۔ بادشاہ کی خدمت میں ہے تو اس کی خدمت کر یہ اس کا احسان سمجھ کہ تجھے اس نے خدمت میں لگا رکھا ہے۔
درس حیات:
1۔زکوۃ بقیہ مال کو حلال کرتی ہے۔
2۔صدقہ، خیرات اور زکوۃ دے کر لوگوں پر احسان نہ جتا۔
3۔اللہ تعالیٰ کی رضا پر مال خرچ کرنے سے اخروی زندگی سنور جاتی ہے۔
(حکایات سعدی صفحہ282)
fa� J : A XZ; �O9 leeq"; mso-bidi-language:ER'>3۔بدنی عبادت میں مالی خرچ نہیں ہوتا اس لئے کنجوس اسے پسند کرتے ہیں۔
4۔کنجوس طبع کے لئے روپیہ پیسہ خرچ کرنا اتنا گراں ہے جتنا کسی گدھے کا دلدل میں پھنس کر نکلنے کی کوشش کرنا ہے۔(حکایات سعدی صفحہ240)
ےR � � � XZ; �O9 ہے۔(خطبات فقیرجلد14صفحہ168)

Thursday 3 November 2011

ایک کنجوس کا بیٹا:


ایک کنجوس کا بیٹا:
شیخ سعدی ایک حکایت ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ایک کنجوس امیر کا بیٹا بیمار ہوا۔ اس کے دوستوں اور خیر خواہوں نے اس سے کہا کہ اس کی بیماری سے شفا کے لئے قرآن مجید کا ختم کروا کر دعائے خیر کرا، یا اس کے لئے مالی صدقہ دے تاکہ اس کے سر سے بلا وبیماری ٹل جائے۔ یہ سن کر وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گیا اور پھر بولا دوستو قرآن مجید کا ختم کرنا زیادہ مناسب ہے ، اس لئے کہ میرے مال مویشی دور ہیں اور جانور کیسے لا کر صدقہ دوں۔ ایک صاحب دل نے اس کی بات سن لی اور اس کی نیت کو بھانپ گیا۔ کہنے لگا قرآن ختم کرنا اسے اس لئے پسند آیا کہ قرآن مجید تو اس کی نوک زبان پر یعنی اسے زبانی یاد ہے اور روپیہ اس کی جان میں اٹکا ہے۔ یعنی اسے قرآن مجید خود پڑھنا ہے، جو آسان اور سستا ہے اور صدقہ کا جانور دینا دولت کا خرچہ ہے جو اسے مشکل نظر آتا ہے۔
سچ ہے کہ فرمانبرداری کے لئے زمین پر گردن رکھنا یعنی بدنی عبادت مشکل لگتی ہے ۔ جب اس کے ساتھ صدقہ مال بھی دینا ہوتا ہے۔ ایک دینار خرچ کرنے کے موقع پر لوگ دلدل میں پھنسے ہوئے گدھے کی مثل بن جاتے ہیں۔ اگر الحمد پڑھنی پڑے تو سو بار پڑھ لیں گے، مگرپیسے دینا بوجھ سمجھا جاتا ہے۔
درس حیات:
1۔کنجوس کے لئے مالی قربانی دینا بہت گراں ہوتا ہے۔
2۔کنجوس اپنا مال اپنی اولاد پر بھی خرچ نہیں کرتا۔
3۔بدنی عبادت میں مالی خرچ نہیں ہوتا اس لئے کنجوس اسے پسند کرتے ہیں۔
4۔کنجوس طبع کے لئے روپیہ پیسہ خرچ کرنا اتنا گراں ہے جتنا کسی گدھے کا دلدل میں پھنس کر نکلنے کی کوشش کرنا ہے۔(حکایات سعدی صفحہ240)
ےR � � � XZ; �O9 ہے۔(خطبات فقیرجلد14صفحہ168)

Tuesday 25 October 2011

سخاوت


سخاوت
دوشخص مر گئے اور حسرت کے ساتھ گئے۔ ایک وہ جس کے پاس مال تھا لیکن اس میں سے نہ کھایا،  دوسرا وہ جو علم رکھتا تھا لیکن عمل نہ کیا۔   فاضل، بخیل کے عیب گنوانے میں ہر کسی کو مصروف دیکھتا ہے۔ اگر کوئی سخی دو سو عیب بھی رکھتا ہو تو اس کی سخاوت کے ہوتھوں لوگ اس کے عیبوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔
درس حیات:
1۔دنیا میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال خود بھی کھاو اور اوروں کو بھی کھلاو۔
2۔سخاوت کرو اس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور بندوں کے دلوں سے دعائیں ملتی ہیں۔
3۔جو روز محشر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا متمنی ہو وہ سخاوت کو شعار بنائے۔
(حکایات سعدی صفحہ341)
N � h i XZ; �O9 font-family:"Alvi Nastaleeq"; mso-bidi-language:ER'>1۔زکوۃ بقیہ مال کو حلال کرتی ہے۔
2۔صدقہ، خیرات اور زکوۃ دے کر لوگوں پر احسان نہ جتا۔
3۔اللہ تعالیٰ کی رضا پر مال خرچ کرنے سے اخروی زندگی سنور جاتی ہے۔
(حکایات سعدی صفحہ282)

Tuesday 18 October 2011

بخل بری عادت ہے:


بخل بری عادت ہے:
سونا کان سے کان کنی کے کام کرکے نکلتا ہے۔ اور بخیل کے ہاتھ سے بخل جان کنی کے بعد نکلتا ہے۔
کمینے کھاتے نہیں ہیں بلکہ اسے جوڑ کے رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کھانے کی تمنا کرنا کھانے سے بہتر ہے۔ دشمنوں کی خواہش کے مطابق تو ایک دن دیکھ لے گا کہ مال وزر یہاں رہ گیا ہے اور یہ ناچیز بے چارہ ہو کر مر گیا ہے۔
(حکایات سعدی صفحہ231)