آج پوری دنیا میں آپ گھوم کر دیکھ لیں آج لوگوں کا لینے کا مزاج بنا ہوا ہے۔ ہر بندہ لینا چاہتا ہے، ہر کسی سے لینا چاہتا ہے۔ لینے کا مزاج ، جھوٹ ۔۔۔۔۔لینے کے لئے دلیل، سود۔۔۔۔لینے کی دلیل، دھوکہ۔۔۔۔لینے کی دلیل، خیانت۔۔۔۔لینے کی دلیل، غبن۔۔۔۔لینے کی دلیل، چوری۔۔۔۔لینے کی دلیل، ڈکیتی۔۔۔۔لینے کی دلیل، ناپ تول میں کمی بیشی۔۔۔۔لینے کی دلیل۔ تو یوں لگتا ہے کہ عمومی مزاج ہی لینے کا بن گیا ہے۔
دینے والا مزاج:
اور شریعت کو کہ وہ مومن کو کہتی ہے کہ تم دینے کا مزاج بناو۔ یااللہ دینے کا مزاج ؟ کہا ہاں تم مومن ہو لینے کا مزاج نہیں رکھنا دینے کا مزاج رکھنا ہے۔ کیسے دیں؟ فرمایا : زکوۃ دو تمہارے مال میں غریبوں کا حق ہے۔ و فی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم(معارج24-25)
اور جن کے مالوں میں حصہ مقرر ہے، سوالی اور غیر سوالی کے لئے۔
زکوۃ دو اچھا اللہ زکوۃ دے دی۔ فرمایا کھیتی کرتے ہو عشر ادا کرو۔ اچھا عشر بھی ادا کردیا فرمایا : اللہ کے راستے میں نفلی صدقات بھی دو۔ صدقہ بھی کرو۔ اچھا اللہ ہم نے یہ صدقہ بھی کر لیا۔ فرمایا : ایک دوسرے کو ہدیہ بھی دو۔(خطبات فقیرجلد14صفحہ188)
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ ایک آدمی جہنم کے کنارے تک پہنچا ہوا ہے اور آگ کی لپٹیں اٹھ رہی ہیں اور اس کے چہرے تک آرہی ہیں اور چہرہ جھلس رہا ہے مگر میں نے دیکھا کہ اس کے صدقے اور خیرات نے اس کے اور جہنم کے درمیان آڑ بن کر اس کو جہنم سے بچا لیا۔ تو اللہ کے راستے میں دینا ، دین کے کاموں میں خرچ کرنا چاہئے۔ ضڑوری تو نہیں ہوتا کہ ہر بندہ لاکھوں لگائے، کئی دفعہ ایک روپیہ جو اللہ کے راستے میں خرچ کیا بندے کے لئے جنت میں جانے کا سبب بن جایا کرتا ہے تو تھوڑا صحیح مگر اللہ کے نام پر انسان دے یہ صدقہ خیرات قیامت کے دن جہنم سے بچنے کا ذریعہ ہے۔(خطبات فقیرجلد14صفحہ168)
No comments:
Post a Comment